میں ابھی لاہور کے سروسز ہسپتال کے کامن وارڈ میں ایک غریب مزدور کی عیادت کرکے آرہا ہوں۔ ہسپتال میں یہ میرا دوسری دفعہ جانا ہوا‘ پہلے بھی ایک سفید پوش کی عیادت کرنے گیا تھا۔ اب دوسری دفعہ جانا ہوا انسانوں بڑوں اور بچوں کااتنا ہجوم‘ اتنا رش کہ شاید مخلوق خدا اپنے تمام کام بھول گئی ہے اور ان کا کام ہی صرف ہسپتال ہے کبھی کبھی میں ٹھنڈی سانسیں بھر کر ایک بات کہا کرتا ہوں کہ آج وہ بات بے ساختہ میرے دل سے نکلی‘ کہ جب دیکھو کہ ہسپتالوں اور کچہریوں میں رش بڑھ جائے‘ مخلوق خدا افراتفری میں پھر رہی ہو تو سمجھ لو کہ یہ پریشان معاشرے کی زندہ دلیل ہے۔ جس معاشرے میں بیماریاں‘پریشانیاں‘ گھریلو الجھنیں ‘مقدمات‘ طلاقیں‘ روز کی گھر کی لڑائی‘ بچوں کا ہروقت کارٹون، نیٹ یا موبائل میں بیٹھے رہنا‘ محلے بازار بن جائیں اور گلیاں مارکیٹیں بن جائیں اور باہر کا کھانا منگوا کر گھر میں دسترخوان سجانا اعزاز وقار اور احترام بن جائے تو اس معاشرے میں رہنا اور اس معاشرے کے بارے میں تبصرہ کرنا واضح اور سچی بات ہے کہ وہ بیمار معاشرہ ہے‘ اندر سے ٹوٹا ہوا اور کھوکھلا جس کے تانے بانے ختم ہوچکے ہیں اور جس میں ہر سانس ہر لمحہ‘ ہر لحظہ اچانک کیا ہوگا کا فکر‘ دلوں میں موجود ہے۔ اور وہ معاشرہ جو سوچوں میں ایسا ڈوبا ہوا کہ پتہ نہ چلے کہ میں گاڑی ڈرائیو کررہا ہوں یاموٹرسائیکل‘ اور موٹرسائیکل کی ڈرائیو کے دوران وہ اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ کر ہواؤں فضاؤں میں باتیں کرنا شروع کردے اور اس طرح بے شمار واقعات اور حادثات ہوجائیں۔ رات کو دیر سے سونے والا معاشرہ اور صبح دیر سے اٹھنے والے افراد جنہوں نے آج تک چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کا نغمہ‘ سورج کی پہلی کرن سالہاسال سے نہیں دیکھی‘ ایک صاحب مجھےملے نماز، روزہ، تسبیح اور اسلام کے کسی بھی رکن سے دور پرے کا ان سے تعلق نہیں‘ سال کے بعد عید آتی ہے اور اس عید سے بھی اس لیے محروم ہیں کہ صبح لیٹ اٹھنے کا مزاج اور طبیعت ہے۔ پرانی ریت روایات کو جو بولے یا چلے اس کو بنیاد پرست اور چھوٹےذہن کا فرد کہا جاتا ہے لیکن کچھ سالوں سے میں ایک بات محسوس کررہا ہوں معاشرہ واپس اپنی زندگی کے فطری اصولوں کی طرف لوٹ رہا ہے مدہم لائٹیں‘ پارک میں کچے ٹریک (یعنی کچی سڑکیں)‘ گرافی کے نام پر ہاتھوں سے لیپا پوتی، کچے گھروں کی طرح کا رواج بڑھ رہا ہے‘ سوتی کپڑے کاٹن کے نام پر‘ چمڑا لیدر کے نام پر‘ موٹا پسا ہوا آٹا وٹامنز کے نام پر اور چوکر کا استعمال براؤن بریڈ یا چوکر والے بسکٹ کے نام پر لیکن بہت کم لوگ جو اس فطری زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں ہم میں سے چند لوگ لیکن مغرب یعنی گوروں میں ایک ہجوم اور اکثریت ہے جو فطرت کی تلاش میں واپس لکڑی‘ سوتی کپڑے‘ چمڑے کی طرف رجوع کررہے ہیںاور مصنوعی چیزوں سے چھٹکارے کا عزم کرچکے ہیں۔ گولیاں کھانے والا معاشرہ اور جس معاشرے میں نشے کا استعمال پڑھے لکھے لوگوں میں اور خاص طور پر میڈیکل کالجز میں اور ہسپتالوں میں بہت تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے وہ کمزور اور بیمار معاشرہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اندر سے ٹوٹ گیا ہے کیا سارا قصور حکمرانوں اور وقت کے بادشاہ کا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ سارا ہمارا قصور ہے ہم نے اپنی زندگی کو مصنوعی زندگی کے دھاروں پرایسا چلایا کہ اپنی زندگی کا چین سکون کھو بیٹھے‘ یقین جانیے! دین فطرت ہے مدینے ﷺ والے کافرمان فطرت ہے رب کی دی ہوئی زندگی فطرت ہے اس فطرت سے جو بھی دور ہوگا وہ فطری زندگی سےدور نہیں ہوگا دراصل وہ چین اور سکون کا کھویا ہوا ایسا فرد ہوگا جسے سہارا دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے آسرا ہمارے کندھے اور ہمارے بازو بنیں ہمارے میٹھے بول ہماری زندگی کی سانسیں اور ہمارا پل پل ایسے لوگوں کیلئے اپنی پلکیں بچھائیں۔ آج اس ٹوٹے معاشرے کو پھر سے جوڑنے کی ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں سوئی دھاگہ چاہیے تاکہ ہم ٹوٹے دلوں اور ٹوٹے معاشرے کو سی سکیں۔ ہمیں قینچی اور چھری نہیں چاہیے معاشرہ تو پہلے ہی کٹا اور ٹوٹا ہوا ہے۔ عبقری ایک ٹوٹا پھوٹا پیغام ہے ایک سوچ ہے اور ایک جذبہ ہے اس جذبے کے تحت ہم زندگی کے دن رات سنوار لیں اور لوگوں کیلئے بے لوث سہارا بن جائیں۔ آئیے! معاشرے میں اس جذبے کو پھیلائیں محبتیں بانٹیں‘ پھول بکھیریں آپس میں نفرت اور عداوت کو چھوڑ کر ایک جسم ایک جان ہوجائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں